ٹرمپ نے 30 سے زائد بار جنگ کی تسبیح پڑھ لی، بھارت کا پارہ ساتویں آسمان پر

‎سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے اور جنگ کے خطرات کو ٹالنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے اس موضوع پر بات کی ہو۔ اس سے قبل وہ تیس سے زائد مرتبہ کھل کر یہ مؤقف دہرا چکے ہیں کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے چاہییں، خاص طور پر اس وقت جب دونوں ایٹمی طاقتیں ماضی میں کئی جنگیں لڑ چکی ہیں اور موجودہ حالات میں بھی ایک دوسرے کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔

(پس منظر اور تاریخ)

‎‎پاکستان اور بھارت کے تعلقات 1947ء کی آزادی سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا اور دیرینہ مسئلہ ہے، جو نہ صرف خطے میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً سرحدی جھڑپوں اور کشیدگی کو ہوا دیتا ہے۔ کئی دہائیوں میں دونوں ممالک نے تین بڑی جنگیں لڑیں، اور حالیہ برسوں میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات نے ماحول مزید سنگین بنا دیا۔‎‎

(ٹرمپ کا مؤقف)

‎‎ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِ صدارت کے دوران بھی کئی مواقع پر پاک-بھارت تعلقات میں ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ بطور ایک غیر جانبدار قوت دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے، بشرطیکہ دونوں فریق اس کردار کو قبول کریں۔ تاہم، بھارت ہمیشہ سے کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کو مسترد کرتا آیا ہے اور مذاکرات کو دوطرفہ معاملہ قرار دیتا ہے۔‎‎اس بار بھی ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنا نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے، کیونکہ کسی بھی ممکنہ جنگ کے نتائج عالمی معیشت اور سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔‎‎(بھارت کا ردعمل)‎‎بھارت نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام مسائل براہِ راست دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل ہوں گے۔ بھارتی حکومت تیسرے فریق کی مداخلت کو اپنی خارجہ پالیسی کے خلاف سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی جب ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش کی، بھارت نے اسے فوراً مسترد کر دیا۔

‎‎(پاکستان کا موقف)

‎‎پاکستان کا مؤقف نسبتاً مختلف رہا ہے۔ اسلام آباد کئی مواقع پر تیسرے فریق، خاص طور پر اقوام متحدہ یا امریکہ جیسے بڑے ممالک، کی مداخلت کی حمایت کرتا رہا ہے۔ پاکستانی قیادت کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر سکتا ہے، خاص طور پر کشمیر جیسے پیچیدہ معاملے پر۔

‎‎(عالمی تناظر)

‎‎عالمی برادری کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ پاک-بھارت کشیدگی نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر خطوں کے امن پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور کسی بھی غلط فہمی یا عسکری تصادم کی صورت میں یہ تنازعہ بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی لیے امریکہ سمیت بڑی طاقتیں وقتاً فوقتاً دونوں ممالک پر امن قائم رکھنے کے لیے زور دیتی رہتی ہیں۔‎‎حقیقت یا سیاسی بیانیہ؟‎‎یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات عملی اقدامات میں بدل پائیں گے یا نہیں۔ ان کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ اکثر بڑے بیانات دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر ایسے اقدامات کم ہی دیکھنے کو ملے جن سے پاک-بھارت تعلقات میں کوئی واضح بہتری آئی ہو۔ تاہم، ان کے بار بار کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسئلہ عالمی سیاست میں ایک اہم ایجنڈا رکھتا ہے۔‎‎نتیجہ‎‎ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بار پھر پاک-بھارت تعلقات پر بات کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا کے تنازعات سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں۔ چاہے یہ بیانات محض سیاسی ہوں یا امن قائم کرنے کی ایک حقیقی کوشش، حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دونوں فریق سنجیدگی سے مذاکرات کریں اور ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بصورت دیگر، ہر چند ماہ بعد ایسے بیانات آتے رہیں گے لیکن حالات جوں کے توں رہیں گے

Leave a Comment